اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۸۰

دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ” موت کے بعد سے اِس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے“۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی ، اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہو گا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے ۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ o قَالُوْ ا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَادِّیْنَ۔”اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصّہ رہے ہوں گے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے“ (المومنون آیات ۱۱۲ – ۱۱۳)۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے   وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْ ا غَیْرَ سَا عَۃٍ کَذٰلِکَ کَا نُوْ ا یُؤْفَکُوْنَo وَقَالَ الَّذیْنَ اُوْتُوْ ا الْعِلْمَ وَ ا لْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo ”اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر  کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا  تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے، مگر تم جانتے نہ تھے“(الروم – آیات ۵۵ – ۵۶)۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی  اور برزخ کی زندگی ، دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے ۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت  کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کفِ افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد ِ موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالمِ آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی  کے ساتھ ان کے ذہن میں اُترا ہی نہ تھا۔ یہی تصوّرات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدا ر ہوں گے  اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نر سنگھے کی آواز پر مارچ کرتے ہوئے پائیں گے تو وہ شدید گبھراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بے ہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ  سے دوچار ہونے کے  بعد سے اِس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا ۔ اُن کی کھوپڑی میں اُس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا  میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے ہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اُڑا دیا کرتے تھے ۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا یہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں ، اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے  والے صاحب لوگ صور کی  آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں۔