اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۷

غالبًا اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا   خالفو ا الیھود فانھم لا یُصَلّون فی نعا لہم ولا خفا فہم، ”یہودیوں کے خلاف عمل کرو۔کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے“(ابو داؤد)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسیا کرنا جائز ہے، اس لیے دونوں طرح عمل کرو۔ ابوداؤد میں عَمْرو ؓ بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ مُسند احمد اور ابوداؤد میں ابو سعید خُدرِی ؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا” جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جُوتے کو پلٹ کر دیکھ لے۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کرلے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ “ ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں حضور ؐ  کے یہ الفاظ ہیں”اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہوتو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے “۔ اور حضرت اُمِ سَلَمہؓ  کی روایت میں ہے: یطھر ہ مابعد ہٗ  ، یعنی ”ایک جگہ گندگی  لگی ہوگی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی “۔ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف، امام اَوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جو تا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پا ک ہو جاتا ہے۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اِس کے خلاف ہے۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں، اگر چہ سمجھا یہی گیا  ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑ نے سے پاک نہیں ہوتا۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ  مسجد نبوی میں چٹائی تک کو فرش نہ تھا، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہوگا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ بڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں ، وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں)۔