اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۵۹

“من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل البقرہ، حاشیہ نمبر ۷۳۔ الاعراف ، حاشیہ نمبر ۱۱۹۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کےبعد جب بنی اسرائیل دشتِ سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آگئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا ، اور فلسطین کے اباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا( خروج، باب ۱۶۔ گنتی، باب ۱۱۔ آیت ۷ – ۹ ۔ یشوع، باب ۵، آیت ۱۲)۔ کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے:
”اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گو ل چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں ، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اُسے دیکھ کر آپس میں کہنےلگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانے تھے کہ  وہ کیا ہے“(باب ۱۶ – آیت ۱۳ – ۱۵)۔
”اور بنی اسرائیل نے اُس کا نام مَن رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے نے ہوئے پوئے کی طرح تھا “ (آیت ۳۱)۔
گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے:
”لوگ اِدھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اُسے ہانڈیوں میں اُبال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ مَن بھی گرتا تھا“ (باب ۱۱، آیت ۸ – ۹)۔
                یہ بھی ایک معجزہ تھا ۔ کیونکہ ۴۰ برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے ، نہ مَن ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے اُن علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے ۴۰ سال تک دشت نوردی کی تھی۔ مَن اُن کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے مَن کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔