اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۵۵

بڑے لطیف انداز میں کفار ِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار  اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی  نہ تھی۔
اِس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل کے بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ اُن لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جائے جو کہتے ہیں  کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سےنقل کر لیے گئے ہیں۔ بائیبل کی کتاب  خروج(Exodus ) میں اِس قصّے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسبِ ذیل اجزاء قابل ِ توجہ ہیں:
(۱) باب۴، آیت  ۲ – ۵ میں بتایا گیاہ ے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت ۱۷ میں انہی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ”تُو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا“۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب ۷ سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔
(۲) باب ۵، میں فرعون سے حضرت موسی ٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اُس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر اُن کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ ” خداوند کون ہے کہ میں اُس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا“۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اِس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ ”عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے“۔ (باب ۵ – آیت ۲ – ۳)۔
(۳) جادوگروں سے مقابلے کی پوری داستان بس اِن چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے:
”اور خدا وند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جائے۔ اور موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگروں کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا ۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی  لاٹھی سامنے ڈالی اور  وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی“۔ (باب ۷۔ آیت ۸ – ۱۲)۔
اِس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جائے کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بُری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کےدن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا ، اور پھر شکست کے بعد جادوگروں کا ایمان لانا ، جو قصّے کی اصل جان تھا ، سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔
(۴) قرآن کہتا ہے کہ حضرت  موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہےکہ مطالبہ صرف یہ تھا ”ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیے قربانی کریں“۔ (باب ۵ – آیت ۳)۔
(۵) مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب ۱۱ سے ۱۴ تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات ، اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور  ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب ۱۴ کی آیات ۱۵ – ۱۶ میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ”تُو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اُٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصّے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل جائیں گے“۔ لیکن آگے چل کر آیت ۲۱ – ۲۲ میں کہا جاتا ہے کہ ”پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصّے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا“۔ یہ  بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ؟ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب  صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا ۔ کیا فطری طریقے سےہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟
تلمود کا بیان نسبتًا بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ ایک جگہ براہِ راست  علمِ وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جارہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینہ بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو:
The Talmud Selections. H. Polano. PP. 150-54,