اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر ہو رہا ہے۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ، خالقِ زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسرِ عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے۔ بالفاظ ِ دیگر ، وہاں فرعون اور جادوگروں اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے، اور امتحان اِس بات کا ہورہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قِسم سے ہے یا اُس معجزے کی قِسم سے جو ربّ العالمین کی قدرت کےکرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادُو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ”ہم نے مان لیا ، موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے “، بلکہ انہیں فوراً یقین آگیا کہ موسیٰ واقعی اللہ ربّ العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اُٹھے کہ ہم اُس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں۔ |