اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۴۲

ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آرہی تھیں ۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے اُن سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹھیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اُس جادو کے اثر کو باطل کردیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ سورۂ اَعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفُ مَا یَا فِکُوْنَ،”جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے  اس کو وہ نگلے جا رہا تھا “۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا،” وہ نگل جائے گا اُس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے“۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نِگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی ، لاٹھی اور ہر رسی ، رسی بن کر پڑی رہ گئی۔