“بائیبل مں اس کی جو تشرح بیان ہوئی ہے وہ یہ ے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کیا”اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کیا۔ بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے “(خروج ۱۰:۴)۔ مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے اُٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی ، مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی۔ |