اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر١١۲

اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مِشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو ابھی سزا نہیں دی جائے گی، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ  تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو ، اس کا نتیجہ  وہ کچھ سامنے آئے گا  جس سے تمہارا دل خوش ہو جائے گا یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا  عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، ”توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام ِ محمود پر پہنچا دے گا“ آیت ۷۹۔ اور سُورۂ ضحٰی میں فرمایا   وَلَلْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ o وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ،” تمہارے لیے بعد کا دَور یقیناً پہلے دَور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمہارا ربّ تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤگے“۔