اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر١۰۲

یہاں اُس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے  جو آدم علیہ السّلام سے ظہُور میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور ربّ جانتے تھےاوردل سے مانتے تھے۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہِ راست علم ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ شیطان اُن کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکا ؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا ۔ اِن ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آکر ایک بہتر حالت(زندگیِ جاوداں اور سلطنتِ لازوال) کا لالچ دیا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھِسل گئے ، حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کےذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے۔ بس ایک فوری جذبے نے ، جو شیطانی تحریص کے زیرِ اثر اُبھر آیا تھا، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقامِ بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔ یہی وہ”بھول“ اور ”فقدانِ عزم“ ہے جس کا ذکر قصّے کے آغاز میں کیا گیا تھا، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی  اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہو ئی، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو۔