اس رکوع کو چھاپیں

سورة مریم حاشیہ نمبر۳۰

”رسول“ کے معنی ہیں”فرستادہ“ ،” بھیجا ہوا“۔  اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد، پیغام بر ، ایلچی اور سفیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں یہی لفظ یا تو ان ملائکہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کارِ خاص پر بھیجے  جاتے ہیں ، یا پھر اُن انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ  تعالیٰ نے خلق کی طرف اپنا پیغام  پہنچانے کے لیے مامور فرمایا ۔
”نبی“ کے معنی میں اہلِ لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو لفظ نَبَا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی ”خبر دینے والا“ کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کا مادّہ  نبُو  ہے، یعنی رفعت اور بلندی۔ اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے ”بلند مرتبہ“ اور ”عالی مقام“۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل  نبیٔ  ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں ، اور انبیاء کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔
پس کسی شخص کو ”رسول نبی“ کہنے کا مطلب یا تو ”عالی مقام پیغمبر“ ہے ، یا ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر“، یا پھر”وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے“۔
قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ۔  لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے  یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے ۔ مثلاً سُورۂ حج، رکوع ۷ میں فرمایا   وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا ۔۔۔۔۔۔” ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر ۔۔۔۔۔“ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہلِ تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کی اہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ کوئی بھی رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کو تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ  رسول کا لفظ نبی کی بہ نسبت خاص ہے ، یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتاہے، مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا، یا بالفاظِ دیگر انبیاء میں سے رسول کا لفظ اُن جلیل القدر ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا۔ اِسی کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جو امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ۳۱۳ یا ۳۱۵ بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ ۲۴ ہزار بتائی۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں ، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔