اس رکوع کو چھاپیں

سورة مریم حاشیہ نمبر١۷

ان الفاظ سے اُس پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِ زہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ، بلکہ یہ فکر اُن کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطر ناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ کہ فرشتے نے اُن سے کہا ”غم نہ کر“ اس بات کو واضح کررہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو وہ چاہے تکلیف  سے کتنی ہی تڑپے ، اُسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔