اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر۹

 اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد ۴۵۲ ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ۴۷۴ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب ’’ تاریخ زوال و سقوط دولت روم‘‘ کے باب ۳۳ میں ’’ سات سونے والوں ‘‘ (Seven Sleepers ) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے ، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِیسِیس (Decius )تھا جس نے ۲۴۹ ء سے ۲۵۱ ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں ، اور گبن اس کا نام اِفِسُس(Ephesus ) بتاتا ہے جو ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ٹرکی کے شہر از میر (سمرنا) سے ۲۰۔ ۲۵ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۲ صفحہ ۴۳)۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذو سیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈو سیس (Theodosious ) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ۴۰۸ ء سے ۴۵۰ ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ (Jamblichus ) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال (یعنی تقریباً ۴۴۵ ء یا ۴۴۶ء میں ) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ۱۹۶ سال بنتی ہے۔ بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر ۲۵ میں دے دیا ہے۔
اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’جہالت ‘‘ کا الزام لگایا ہے ، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جایا کرتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحر صحیح ہے اور اس سیکسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے ، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ (قصہ اصحاب کہف کے متعلق مزید معلومات ضمیمہ نمبر ۱ میں بیان کی گئی ہیں جو کتاب کے آخرت میں درج ہے )۔