اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر۷

 الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور وہ اَیلہ(یعنی عَقَبہ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع (باب ۱۸۔ آیت ۲۷) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے۔ پھر ہو اسے ننطیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوواہ اور اُدومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹۴۶ ء جلد ۱۷۔ص ۶۵۸)۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔