اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر٦۵

 ضرور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات براہ راست وحی یا الہام کے ذریعہ ہی سے ذو القرنین کو خطاب کر کے  فرمائی ہو، حتیٰ کہ اس سے ذو القرنین کا نبی یا محدث ہونا لازم آئے۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حل کے واسطے سے بھی ہو سکتا ہے ، اور یہی قرین قیاس ہے۔ ذو القرنین اس وقت فتح یاب ہو کر اس علاقے پر قابض ہوا تھا۔ مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بے بس ہ۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔