اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر۴

 یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں ، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپکو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’ میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے ، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو ‘‘۔ (بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ۳ )۔
اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے ، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کا م صرف بشارت اور انذار ہے ، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو۔ جو نہ مانے اسے بُرے انجام سے متنبہ کر دو۔