اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر١۸

سُریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور علام آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ اگر چہ رومی سلطنت کے اثر سے عم لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے ، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پر ستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقت ور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار ، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ افسس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ (جسے صَدوقی کہا جاتا تھا ) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ گروہ کتاب اللہ (یعنی توراۃ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ متی، مرقس ، لوقا، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا ، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو مری باب ۲۲۔ آیت ۲۳۔ مرقس باب ۱۲۔ آیت ۱۸۔ ۲۷۔ لوقاباب ۲۰۔ آیت ۲۷۔۴۰) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک باقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا۔