اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۹۵

قرآن فجر کے  مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے  ہیں ، جیسا کہ احادیث میں تبصریح بیان ہوا ہے ۔ اگر چہ  فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں، لیکن جب خاص طور پر  نمازِ فجر کی قر أت پر ان کی گواہی کا ذکر کیاگیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجرکی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی  کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا۔
                اس آیت میں مجملاً یہ بتا یا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی ، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتا ب سے پہلے پڑھ لی جائے، او ر باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمتِ شب تک پڑھی جائیں۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔ چنانچہ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جبریل نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے  تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا، پھرعصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا ، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اُس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، پھر عشا ء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پیناحرام ہو جاتاہے۔ دوسرے دن اُنہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اُس کے قد کے برابر تھا، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا، اور مغرب کی نماز اس  وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے،  اور عشاء کی نماز ایک تہائی گزر جانے کےپر، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ پھر جبریل ؑ  نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ؐ ، یہی اوقات انبیاء کے نماز  پڑھنے کے ہیں ، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں“۔ (یعنی  پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتا ئی گئی ہے ۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے)۔
                قرآن مجید میں خود بھی نما ز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا:
                اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۔ط (آیت ١١۴)
                ”نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گزرنے پر (یعنی عشاء) “
                وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُو عِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ ہ   (آیت ١۳۰)
                ”اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے (فجر)اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تبیح کر (عشاء) اور دن کے سروں پر (یعنی صبح، ظہر اور مغرب) “
پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا:
                فَسُبْحٰنَ اللہِ حِینَ تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ           ہ   (آیات ١۷۔١۸)
                ”پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو(مغرب) اور صبح کرتے ہو(فجر)۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں (عصر) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو(ظہر) “
                نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقات ِ عبادت سے اجتناب کیا جائے۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا، یا بہت بڑا معبود رہا ہے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر اُن کے اوقاتِ عبادت رہے ہیں، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمر و بن عَبَسہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا:
                        صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتٰی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن وحینئِذ یسجد لہ الکفار۔
                        ”صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں“۔
پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار (رواہ مسلم)
”غروب  ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔“
                اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے لیے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر  لیے  جا رہا ہے۔ اس استعارے کی گرہ حضور ؐ  نے خود اپنے اس  فقرے میں کھول دی ہےکہ”اس وقت کفار  اس کو سجدہ کرتے ہیں“۔