اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۴۲

اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ  لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہم و گمان کے بجائے”علم“کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں ، قانون میں ، سیاست اور انتظام ِ ملکی میں ، علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور اُن بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنےسےا انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بد گمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائےتفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان  پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی نا جا ئز ہے ۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اوعر نہ مجر وشبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی اُن نام نہاد علوم کو نا پسند کیا گیا جو محض ظنو تخمین اور لا طائل قیاست پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں او ہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اُس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔