اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۲۹

ہاتھ باندھنا ہی استعارہ ہے بخل کےلیے ، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہےفضول خرچی ۔ دفعہ ۴ کے ساتھ دفعہ٦ کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سےمنشاہ صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ  وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بنکر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے بر عکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا  خرچ سے باز بھی نہ رہیں  اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہو۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ ، اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت  کو غلط راستوں میں بہادیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
                یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں۔ کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت ، اجتماعی دباؤ اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے بے جا صرف ِ مال کی روک تھام کرنی چاہیے۔چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں  ان دونوں دفعات کےمنشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی ۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا سرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعہ سےاُن بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر   حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایا ں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے  ذریعہ سے روک دے۔ اسی طرح زکوٰة و صدقات کے احکام سے بخل کا زور  بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیےگئے کہ لوگ زراندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا۔اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خر چوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گِل سرِ سَبَد قرار دیا۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زراندوزوں کو بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے۔