اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۲۸

ان تین دفعات کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں ، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے ۔ اجتماعی زندگی میں تعاون ، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون ، اور ہر مستظیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگا ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرہ میں حق کا تصوراتنا وسیع ہو کہ ہر شخص اُن سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر  محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کررہا ہے، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگان ِ خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔
                !منشورِ اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے، اور پھر اس کےساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری وساری ہو گئی ، حتیٰ کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا اُن اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے۔