اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١۸

اس آیت  میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر  ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارداے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ،بلکہ  اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کاظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔
                دراصل حقیقت  پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے ،خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگ فسق وفجور پر اُتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بد کاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اورآخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔