اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١٦

یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرنے کے کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہو سکتا ۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی یہ نسلیں اور پشتیں ایک کام  یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہر حال خدا کی آخری عدالت میں اُس مشرک عمل کا تجزیہ  کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی آمہ داری الگ مشخص کر لی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہوگا۔اس انصاف کی میزان میں نہ  یہ ممکن ہوگا  کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہوگا کہ اس کے کرتوتوں کا بارِ گناہ کسی اور پر پڑجائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا  کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ دار کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں ، وہ بہر حال اُسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہےگا جس کی جواب دہی خدا کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کر سکتاہو۔