اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١۰۵

یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید  میں تین مقامات پر گزر چکا ہے۔ سوررہ بقرہ ، آیات۲۳،۲۴ ۔ سورہ یونس، آیت ۳۸ اور سورہ ہود، آیت ١۳۔ آگے سورہ طور، آیات ۳۳۔۳۴ میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ  علیہ وسلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مزید بر آں سورہ یونس، آیت ١٦ میں  اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ  قُلْ لَّوْ شَآ ءَ اللہ ُ مَا تَلَوْ تُہُ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُونَ۔  یعنی”اے محمد ؐ  ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہر گز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا ۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے“؟
                ان آیات میں قرآن کے کلام الہٰی ہونے پر جو استدلال کیاگیا ہے  وہ دراصل تین دلیلوں سےمرکّب ہے:
                ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان ، اسلوب بیان ، طرزِ استدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اور اخبار غیب کے  لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے ۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر وہ جن  جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کواس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں۔
                تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں قرآں سنا  کر کہں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگو ئیں اور تقریر یں بھی سنا کرتے ہو۔ قرآن کے کلام اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام میں زبان او ر اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف استاٹل کبھی ہو نہیں سکتے ۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کے لوگوں  میں رہتے سہتے تھے۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں۔ ان کی زبان اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی  جرأ ت نہیں  کر سکتا  کہ یہ دونوں ایک یہ شخص کے کلام ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲١۔ الطور، حواشی ۲۲،۲۷)