اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١۰١

یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین  تھی، اور باقی مسلمان سخت بے کسی و مظلومی کی حالت میں مکہ او ر اطراف مکہ میں  زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے۔ مگر اسی حالت میں نبی ؐ  کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ایسے وقت میں  یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا او ر انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اُڑادیا۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی شہر مکہ  میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹادیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیا ن ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ؐ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ” جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ جآء الحق ومایُبدئُ الباطل ومایُعید“۔