اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر۵۹

اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت کے دوسرے جُز کی صداقت ثابت کرتا ہے۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظامِ زندگی  غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد  پر تعمیر ہوا ہو۔  دعوت محمدی ؐ کے انہی دونوں اجزاء کو برحق  ثابت کرنے کے لیے یہاں آثارِ کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، یہ آثار جو ہرطرف پائے جاتے ہیں  نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات  کی؟ نبی کہتا  ہے کہ تم مرنے کے بعد  دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے ۔ تم اسے ایک اَن ہونی بات قرار دیتےہو۔ مگر زمین ہر  بارش کے موسم میں  اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادۂ خلق نہ صرف  ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے۔ تمہارے دہریے اس بات کو  ایک  بے ثبوت دعویٰ قرار دیتے ہیں ۔ مگر مویشیوں کی ساخت، کھجوروں اور انگوروں  کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی  دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے ، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ  اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مِل جُل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی  کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا  اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ  اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد  ، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں، خدا کے سوا اور کسی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا  یا ولی تمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟