اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر۴۰

تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ”ذکرِ الہٰی“ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازمًا ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچا یا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ  کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل  ترین انسان لے کر آءے۔ وہ ا س کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو  ان کا شک رفع کرے ، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو  نہ مانیں اور مخالفت  اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں  وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے  جو اِس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو  کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا  کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی  کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام”ذکر“ کے منشا کی شرح ہو۔
 یہ آیت جس طرح اُن منکرینِ نبوت کی حجّت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذِکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اُسی طرح آج یہ اُن منکرینِ حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا ، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ  اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے ، نبی کی تشریح یا تو باقی  ہی نہیں رہی یا با قی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے ، غرض اِن چاروں باتوں  میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں ، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت  سے ٹکراتا ہے۔
 اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اُسے واسطۂ تبلیغ بنایا گیا تھا۔
اور اگر وہ دوسری یا تیسری  بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ  میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا”ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔
 اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدیؐ  ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلکِ معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صر ف اُن لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآ ن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر  ٹھیرارہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے  تو اس کے دو نتیجے  کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونۂ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدیؐ ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اُن طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کر تے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اُسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ  ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختم ِ نبوت پر اصرار کر سکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر  خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے  خود کافی قرار دیں، مُدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چُست کی بات ہر گز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول  کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت  ہو جاتی ہے ۔ قاتلہم اللہ ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔