یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت ، جس میں قبضِ روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے ، قرآن اُن متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب و ثواب ِ قبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں ”قبر“ کا لفظ مجازًا عالمِ برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے ، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرینِ حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہوگا۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں۔ اور فورًا سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی بُرا کام نہیں کر رہے تھے۔ جوب میں ملائکہ ان کو ڈانٹ بتاتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ اُن کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی ، احساس، شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ اسی سے ملتا جُلتا مضمون سورۂ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے۔جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانو ں سے قبضِ روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذابِ برزخ کی تصریح سورۂ مومن آیت نمبر ۴۵ – ۴۶ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور آلِ فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ”ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگے کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ، پھر قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو“۔ |