اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۲۲

یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں۔ ایک حکمت ۔ دوسرے عمدہ نصیحت۔
حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر ، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے ، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔
عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن  کرنے پر اکتفا کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کی اجائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت  میں اُن ے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھار ا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت او ر عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلًا ثابت نہ کی جائے  بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ  نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ  موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔