اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر۱۲۱

یہ کفارِ مکّہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت  نہ تھی کہ سَبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور مِلّتِ ابراہیمی  میں حرمتِ سبت کا کوئی وجود نہ تھا ، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے  ۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کر نے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی  وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں ۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے اُن مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں (مثلاً ملاحظہ ہو  خروج باب ۲۰، آیت ۸ تا ۱۱۔ باب ۲۳، آیت ۱۲ و ۱۳۔ باب ۳۱، آیت ۱۲ تا ۱۷۔ باب ۳۵، آیت ۲ و ۳۔ گنتی باب ۱۵، آیت ۳۲ تا ۳۶)، اور دوسری طرف اُن جسارتوں  سے واقف   نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے  رہے(مثلًا ملاحظہ ہو یر میاہ باب ۱۷، آیت ۲۱ تا ۲۷۔ حِزقِی ایل ، باب ۲۰، آیت ۱۲ تا ۲۴)۔