اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۰۲

ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہو ئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو ، تین تین حکم بھیجے گئَ ہیں۔ مثلًا شراب کا معاملہ ، یا زنا کی سزا کا معاملہ۔ لیکن ہم کو یہ معنی  لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورۂ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے، اورجہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دَور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال  پیش نہ آئی  تھی۔ اس لیے ہم یہاں ”ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک معاملہ کا  کبھی  ایک پہلو  پیش کیا گیا ہے اور کبھی اُسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل۔ ایک بات  ایک وقت میں مجمل طور پر  کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل۔ یہی چیز تھی جسے کفارِ مکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، معاذ اللہ ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع  علمِ الہٰی  ہوتا تو  پوری بات بیک وقت کہہ  دی جاتی۔ اللہ کوئی انسا ن کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی  ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو  انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر  آرہی ہیں۔