اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۰١

اس کا  مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زبان سے اَعُوْ ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ کہہ دیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ فی الواقع دل میں یہ خواہش  اور عملًا  یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ آدمی قرآن پڑھتے وقت شیطان کے  گمراہ کُن وسوسوں سے محفوظ  رہے، غلط اور بے جا شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو ، قرآن کی ہر بات کو اس کی صحیح روشنی میں دیکھے، اور اپنے خودساختہ نظریات یا باہر سے حاصل کیے ہوئے تخیلات کی آمیزش سے قرآن کے الفاظ کو وہ معنی نہ پہنانے لگے جو اللہ تعالیٰ  کے منشا  کے خلاف ہوں۔  ا س کے ساتھ آدمی کے دل میں یہ احساس بھی موجود ہو نا چاہیے کہ شیطان سب سے بڑھ کر جس چیز کے درپے ہے وہ یہی ہے کہ ابنِ آدم قرآن سے ہدایت نہ حاصل کر نے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کتاب کی طرف رجوع کرتاہے تو شیطان اُسے بہکانے اور اخذِ ہدایت سے روکنے اور فکر و فہم کی غلط راہوں پر ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتا ہے۔ اس لیے آدمی کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت انتہائی چوکنّا رہنا چاہیے اور ہر وقت خدا سے مانگتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان کی در اندازیاں اُسے اِس سر چشمۂ ہدایت کے فیض سے محروم نہ کردیں۔ کیونکہ  جس نے  یہاں سے  ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پا سکے گا، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا  کی کوئی چیز گمراہیوں کے چکر سے نہ نکال سکے گی۔
اس سلسلۂ کلام میں یہ آیت جس غرض کے لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر اُن اعتراضات کا جواب دیا جارہا ہے کہ جو مشرکین مکہ قرآن مجید  پر کیا کرتے تھے   ۔ اس لیے پہلے تمہید کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ قرآن کو اس کی اصلی روشنی میں صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو شیطان کی گمراہ کُن وسوسہ اندازیوں سے چوکنّا ہو اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگے۔ ورنہ شیطان کبھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ سیدھی طرح قرآن کو اور اس کی باتوں کو سمجھ سکے۔