اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١

یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔  اُس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغہْ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا ،یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کُن قدم اُٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔
 سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ”فیصلہ“ کیا تھا اور کس شکل میں آیا؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (اللہ اعلم بالصواب ) کہ اس فیصٖے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کاحکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے اُن کے حجُود و انکار کی خری سرحد پر پہنچ کر اُسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم اُن کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد یا تواُن  پر تباہ کُن عذاب آجاتا ہے ، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ہجرت جب واقع ہوئی  تو کفارِ مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکّے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔