اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحجر حاشیہ نمبر۳۰

یہاں حضرت ابراہیم اور ان کے بعد متصلًا  قوم لوط کا قصہ  جس غرض کے لیے سنایا جا رہا ہے اُس کو سمجھنے   کے لیے اس سورۃ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ آیات ۷ -۸ میں کفار ِ مکّہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ”اگر تم سچے نبی ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کے لے کیوں نہیں آتے؟“ اس کا مختصر جواب وہاں صرف اِس قدر دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ ”فرشتوں کو ہم یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے ، انہیں تو ہم جب بھیجتے ہیں حق کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں“۔ اب اُس کا مفصل  جواب یہاں اِن دونوں قصّوں کے پیرائے میں دیا جا رہا ہے۔ یہاں اُنہیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ”حق“ تو وہ ہے جسے لے کر فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تھے، اور دوسرا حق وہ ہے جسے لے کر وہ قومِ لوط پر پہنچے تھے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تمہارے پاس اِن میں سے کونسا حق لے کر فرشتے آسکتے ہیں۔ ابراہیم والے حق کے لائق تو ظاہر ہے کہ  تم نہیں ہو۔ اب کیا اُس حق کے ساتھ فرشتوں کو بلوانا چاہتے ہو جسے لے کر وہ قومِ لوط کے ہاں نازل ہو ئے تھے؟