”شہاب ِ مبین“ کے لغوی معنی ”شعلۂ روشن“ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ”شہابِ ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی”تاریکی کو چھید نے والا شعلہ“۔ اِس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحًا شہابِ ثاقب کہا جا تا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں ، مثلاً کائناتی شعاعیں () یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہابِ ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہابِ ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، اُن کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے ۔ اُن کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصب شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہابِ ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ۱۹۴۶ء۔ جلد ۱۵۔ ص ۳۹ – ۳۳۷)۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات اُن کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابلِ عبور بنا دیتی ہو گی۔ |