اس رکوع کو چھاپیں

سورة ابرھیم حاشیہ نمبر۴۹

یہ حضرت ابراہیمؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں ۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ   وَارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ (البقرہ ۔ آیت ۱۲۶)۔  لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا  وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا  کہ جو میرے طریقے  کے خلاف چلے اُسے سزا دے ڈالیو، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ اُن کے معاملہ میں کیا عرض کروں ، تُو غفورٌرَّحِیْم ہے۔ اور یہ کچھ  اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے  بلکہ جب فرشتے قومِ لوط جیسی بدکار قوم  کو تباہ کرنے جارہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت  کے انداز میں فرماتا ہے کہ ”ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا“(ہود، آیت ۷۴)۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے رو در رو  عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ”اگر حضور ان کو سزا دیں تویہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“(المائدہ ، آیت ۱۱۸)