اس رکوع کو چھاپیں

سورة ابرھیم حاشیہ نمبر۳۲

”یہاں پھر شرکِ اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرکِ عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے۔ ظا ہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے۔سب اُس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں ۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے، اور اُسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب جوا ب میں فرمائیں کے یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالیٰ خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا ۔ دوسرے شرکِ عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اورآگے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار  اور رُہبان  کو اربابٌ من دون اللہ  بنائے ہوئے ہیں ( التوبہ، آیت ۱۳۷) ۔  خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو خدا بنا لیا ہے (الفرقان، آیت نمبر ۴۳)۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں (یٰسین، آیت ۶۰)۔  انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذن ِ خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ”شریک“ ہیں (الشوریٰ، آیت نمبر ۲۱)۔ یہ سب کیا اُسی شرکِ عملی  کی نظیر یں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃً کسی غیراللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ  وہ خدائی سند کے بغیر ، یا احکام ِ خداوندی کے  علی الرغم ، اُس کی پیروی  اور اطاعت کرتا چلا جائے ۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر  اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملًا یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی روح سے وہ اُس کوخدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعًا اُس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے ۔  (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حاشیہ نمبر ۸۷ و  ۱۰۷ ۔ الکہف حاشیہ ۵۰