اس رکوع کو چھاپیں

سورة ابرھیم حاشیہ نمبر۲٦

یہ دلیل ہے اُس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا۔  مطلب یہ ہے کہ اِس بات کو سُن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو  کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانۂ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے  نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز  حقیقت اور واقعیت پر مبنی  نہ ہو، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو ، اُسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اُس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے  وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اُس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی  یہ اُمید کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ  وہ نقش قبول کرے اور ریت کی  حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں  کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل  امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اُسے ناکام ہونا ہی چاہیے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سُن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اِس کائنات  میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اَور کسی کی خدائی مان کر (جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے) زندگی بسر کرے گا ، اس کا پورا  کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے  گا؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختا ر ہر یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو ، تو اس جھوٹ پر ، اس خلاف ِ واقعہ مفروضہ پر، اپنے پورے نظامِ فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے  میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تواُ س کے لیے  اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟