اس رکوع کو چھاپیں

سورة ابرھیم حاشیہ نمبر١

یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطان راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص  جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا  ہی نور علم سے منور ہو۔ بخلاف ا س کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا، چاہے وہ ایک اَن پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تم اِن کو اپنے رب کے اذن یا اُس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ، تو   اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ، مبلّغ ، خوا ہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، راہِ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی کو اس راستہ  پر لے آنا اُ س کے بس میں نہیں ہے۔  اِس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اُس کے اذن پر ہے۔ اللہ کسی کو توفیق  دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا۔ رہی اللہ کی توفیق ، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت  کی توفیق اُسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعضب سے پاک ہو، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ وہ، کھلی آنکھوں سے دیکھے، کھلے کانوں سے سُنے، صاف دماغ سے  سوچے، اور معقول بات کو  بے لاگ طریقہ سے مانے۔