اس رکوع کو چھاپیں

سورة الرعد حاشیہ نمبر١

یہ اس سورے کی تمہید ہے جس میں مقصودِ کلام کو چند لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ روئے سخن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ اِسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہوجاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں اُ ن کا رویہ کس قدر غلط ہے۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیشِ نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی۔ ایک یہ کہ خدائی پوری  کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سواکوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اِس زندگی کے  بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہاہوں۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے، اِنہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طرقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے۔