اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۷۳

اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لطیف تر تنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگ اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے، اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو! غور کرو، تمہاری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جا ہے۔ اگر پیغمبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیغ کا یہ کام جاری کیا ہوتا، یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں  مانیں۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ  یہ شخص بے غرض ہے، تمہاری اور دنیا بھر کی بھلائی کے لیے نصیحت کر رہا ہے اور اس میں  اُس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے  ۔ پھر اس  کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقولیت ہے؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کر ے اس سے کسی کو خواہ مخواہ ضد کیوں ہو؟ کھلے دل سے اس کی بات سنو، دل کو لگتی  ہو تو مانو، نہ لگتی ہو نہ مانو۔