اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر٦۸

بائیبل کا بیان ہے کہ سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے ٦۷ تھے۔ اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی اُن لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب ؑ کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں۔ اس وقت حضرت یعقوب ؑ  کی عمر ١۳۰ برس تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ١۷ سال زندہ رہے۔
اس موقع پر ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف ؑ سمیت ان کی تعداد ٦۸ تھی۔ اور جب تقریباً ۵ سو سال بعد وہ مصر سے نکلے تو وہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ بائیبل کی روایت ہے کہ خرہج کے بعد دوسرے سال بیابانِ سینا میں حضرت موسٰی ؑ نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابل جنگ مردوں کی تعداد ٦۰۳۵۵۰ تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت، مرد، بچے، سب ملاکر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے۔ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ٦۸ آدمیوں کی اتری اولاد ہوسکتی ہے؟ مصر  کی کل آبادی اگر اس زمانے میں ۲ کروڑ فرض کی جائے (جو یقیناً بہت مبالغہ آمیز اندازہ ہوگا)تو اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف بنی اسرائیل وہاں ١۰ فی صری تھے۔ کیا ایک خاندان محض تناسُل کے ذریعہ سے اتنا بڑھ سکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے سے اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ۵ سو برس میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے۔ ان کے لیڈر حضرت یوسف ؑ ، جن کی بدولت مصر میں ان کے قدم جمے، خود پیغمبر تھے۔ ان کے بعد چار پانچ صدی تک ملک کا اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہا۔ اس دوران میں یقیناً انہوں نے مصر میں اسلام کی خوب تبلیغ کی ہوگی۔ اہل مصر میں جو جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا تمدن اور پورا طریقِ زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ  اور بنی اسرائیل سے ہم ربگ ہوگیا ہوگا۔ مصریوں نے ان سب کو اسی طرح اجنبی ٹھیرایا ہوگا جس طرح ہندوستان میں ہندووٴں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھیرایا۔ ان کے اوپراسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کردیا گیا ہوگا جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر ”محمڈن“ کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے۔ اور وہ خود بھی دینی و تہذیبی توابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے وابستہ ہوکر رہ گئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے ہے کہ جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ یکساں لپیٹ لیے گئے۔اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ ہی نکلے اور ان سب کا شمار اسرائیلیوں ہی میں ہونے لگا۔
ہمارے اس قیاس کی تائید بائیبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر”خروج“ میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہُوا ہے، بائیبل کا مصنف کہتا ہے کہ”ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی“(١۲:۳۸)۔ اسی طرح”گنتی“میں وہ پھر کہتا ہے کہ”جو ملی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی“(١١:۴) پھر بتدریج ان گیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے ”اجنبی“اور ”پردیسی“کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں۔ چنانچہ توراة میں حضرت موسٰی ؑ کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے:
”تمہارے لیے اور اُس پردیسی کے لیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو۔ تمہارے لیے اور پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو“(گنتی،١۵:١۵ - ١٦)
”جو شخص بے باک ہوکر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا“ (گنتی، ١۵:۳۰)
”خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا، تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا“(استثناء، ١:١٦)
اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الٰہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے مترجموں نے ”پردیسی“بناکر رکھ دیا۔