اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۴۵

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان شہادتوں نے کس طرح آٹھ نو سال پہلے کے واقعات کو تازہ کر دیا ہو گا ، کس طرح حضرت یوسف ؑ  کی شخصیت زمانہ قید کی طویل گمنامی سے نکل کر یکا یک پھر سطح پر آگئی ہو گی، اور کس طرح مصر کے تمام اشراف معززین، متوسطین اور عوام تک میں آپ کا اخلاقی وقار قائم ہو گیا ہوگا۔ اوپر  بائیبل اور تلمود کے حوالہ سے  یہ بات گزر چکی ہے کہ بادشاہ نے اعلان عام کر کے تمام مملکت کے دانشمندوں اور علماء اور پیروں کو جمع کیا تھا اور وہ سب اس کے خواب کا مطلب بیان کرنے سے عاجز ہو چکے  تھے۔ اس کے بعد حضرت یوسف  ؑ  نے اس کا مطلب یہ بتایا۔ اس واقعہ؛ کی بنا پر پہلے ہی سے سارے ملک کی نگائیں آپ کی ذات پر مرتکز ہو چکی ہونگی۔ پھر جب بادشاہ کی طلبی پر آپ نے باہر نکلنے سے انکار کیا ہوگا تو سارے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ عجیب قسم کا بلند حوصلہ انسان ہے؛ جس کو آٹھ نو برس کی قید کے بعد بادشاہ وقت مہر بان ہو کر بلا رہا ہے اور پھر بھی وہ بیتا ب ہو کر دوڑنہیں  پڑتا۔ پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا ہوگا کہ یوسف ؑ  نے اپنی رہائی قبول کرنے اور بادشاہ وقت کی ملاقات کو آنے کے لیے کیا شرط پیش کی ہے تو سب کی نگاہیں اس تحقیقات کے نتیجے پر لگ گئی ہوں گی۔ اور جب لوگوں نے اس کا نتیجہ سنا ہوگا تو ملک کا بچہ بچہ عش عش کرتا رہ گیا ہوگا کہ کس قدر پاکیزہ سیرت کا ہے یہ انسان جس کی طہارت نفس پر آج وہی لوگ گواہی  دے رہے ہیں جنہوں نے مل  جُل کر کل اُسے جیل میں ڈالا تھا۔ اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے کہ اُس وقت حضرت یوسف ؑ  نے بادشاہ سے ملاقات کے موقع پر خزائن ارض کی سپردگی کا مطالبہ کیسے بے دھڑک پیش کر دیا اور بادشاہ نے اسے کیوں بے تامل قبول کر لیا۔ اگر بات صرف اسی قدر ہوتی کہ جیل کے ایک قیدی نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتا دی تھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ کسی انعام کا اور خلاصی پا جانے کا مستحق ہو سکتا تھا۔ اتنی سی بات اس کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ بادشاہ سے کہے”خزائنِ ارض میرے حوالہ کرو“ اور بادشاہ کہہ دے”لیجیے، سب کچھ حاضر ہے“۔