اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۴۳

یعنی جہاں تک میرے رب کا معاملہ ہے ، اس کو تو پہلے ہی میری بے گناہی کاحال معلوم ہے ۔ مگر تمہارے رب کو بھی میری رہائی سے پہلے اُس معاملہ کو پوری طرح تحقیق کر لینی چاہیے جس کی بنا پر مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ میں کسی شبہہ اور کسی بدگمانی کا داغ لیے ہوئے خلق کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔ مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے بر سر عام یہ ثابت ہونا چاہیے کہ میں بے قصور تھا۔ اصل قصور وار تمہاری سلطنت کے کار فرما اور کار پرواز تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ میری پاک دامنی پر ڈالا۔
                اس مطالبے کوحضرت یوسف ؑ جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اُس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو بیگم عزیز ک دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ اس کی طرف صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا۔
                پھر اس مطالبہ میں حضرت یوسف ؑ عزیز مصر کی بیوی کو چھوڑ کر صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کے ذکر پر اکتفا فرماتے ہیں ۔ یہ ان کی انتہائی شرافت نفس کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس عورت نے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کی ہو، مگر پھر بھی اس کا شوہر ان کا محسن تھا اس لیے انہوں نے نہ چاہا کہ اس کے ناموس پر خود کوئی حرف لائیں۔