اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۴۲

یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے۔ بائیبل کا بیا ن ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف ؑ فوراً چلنے کے لیے تیار ہوگئے، حجامت بنوائی، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے۔ اس کا بیا ن یہ ہے کہ ”بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا  جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف ؑ  کو قید خانے سے نکالا، حجامت بنوائی، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا ۔ وہاں زروجواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف ؑ ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونےلگیں۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سےہم کلام ہوتا تھا۔ اور جب ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مُخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا  اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی“۔ اس تصویر میں  بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبر ی کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقلِ عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کی حیثیت اتنی گہری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اُسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی بر تری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے۔