اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۳۴

یہ تقریر جو اس پورے قصّے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے، بائیبل اور تلمود میں کہیں اِس کی طرف ادنٰی اشارہ تک تنہیں ہے۔ وہ حضرت یوسف ؑ کو محض ایک دانشمند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ مگر قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی سیرت ے ان پہلووٴں کو بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت بہت زیادہ روشن کرکے پیش کرتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ وہ ہم کو ی بھی بتاتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ اپنا ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ کا کام انہوں نے قید خانہ ہی میں شروع کردی تھا۔
یہ تقریر ایسی نہیں ہے کہ اس پر سے یونہی سرسری طور پر گزر جائیے۔ اس کے متعدد پہلو ایسے یں جن پر توجہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے:
          (١) یہ پہلا موقع ہے جبکہ حضرت یوسف ؑ ہم کو دینِ حق کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سےپہلے ان کی داستانِ حیات کے جوابواب قرآن نے پیش کیے ہیں ان میں صرف اخلاقِ فاضلہ کی مختلف خصوصیات مختلف مرحلوں پر ابھرتی رہی ہیں مگر تبلیغ کا کوئی نشان وہاں نہیں پایا جاتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے مراحل محض تیاری اور تربیت کے تھے۔ نبوت کا کام عملاً اِس قید خانے کے مرحلے میں ان کے سپرد کیا گیا ہے اور نبی کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی تقریر دعوت ہے۔
          (۲) یہ بھی پہلا موقع ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کی۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت صبرو شکر کے ساتھ ہر اُس حالت کو قبول کرتے رہے جو ان کو پیش آئی۔ جب قافلے والوں نے ان کو پکڑ کر غلام بنایا، جب وہ مصر گئے، جب انہیں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا گیا، جب انہیں جیل بھیجا گیا، ان میں سے کسی موقع پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں ابراہیم و اسحاق ؑ کا پوتا ہوں اور یعقوب ؑ کا بیٹا ہوں۔ ان کے باپ دادا کوئی غیر معروف لوگ نہ تھے۔ قافلے والے خواہ اہل مَدیَن ہوں یا اسماعیلی، دونوں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہی تھے۔ اہل مصر بھی کم از کم حضرت ابراہیم سے تو ناواقف نہ تھے۔ (بلکہ حضرت یوسف ؑ جس انداز سے ان کا اور حضرت یعقوب ؑ اور اسحاق ؑ کا ذکر کررہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں بزرگوں کی شہرت مصر  میں پہنچی ہوئی تھی)۔ لیکن حضرت یوسف ؑ نے کبھی باپ دادا کا نام لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش نہ کہ جن میں وہ پچھلے چار پانچ سال کے دوران میں مبتلا ہوتے رہے۔ غالباً وہ خود بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ انہیں بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ان کا ان حالات سے گزرنا ہی ضروری ہے۔ مگر اب انہوں نے محض اپنی دعوت و تبلیغ کی خاطر اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا کہ میں کوئی نیا اور نرالا دین پیش نہیں کررہا ہوں بلکہ میرا تعلق دعوتِ توحید کی اس عالمگیر تحریک سے ہے جس کے آئمہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب ؑ ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ داعی حق کچھی اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھاکر تاکہ وہ ایک نئی بات پیش کررہا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہ سوجھی تھی، بلکہ پہلے قدم ہی پر یہ بات کھول دیتا ہے کہ میں اس ازلی و ابدی حقیقت کی طرف بلا رہا ہوں جو ہمیشہ سے تمام اہل حق پیش کرتے رہے ہیں۔
         (۳) پھر حضرت یوسف ؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمہیں ضرور بتاوٴں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمہیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ اُن کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغِ حق کی دُھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رُخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔جسے دعوت کی دھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اُس نادان مبلگ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اور جھگڑالو پن سے انہیں اُلٹا متنفر کرکے چھوڑتا ہے۔
          (۴) اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسف ؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کردیتے بلکہ ان کے سامنےدین کے اُس نقطہٴ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستوں سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بگیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دلودماغ میں تو تیرکی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کرسکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاوٴں کا، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجاوٴ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبےکے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا، کسی کو خداوند نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِّ دولت یا مختارِ صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں، ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی اَن داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اُس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی کداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے تو فرمانروائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔
          (۵) اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے قید خانے کی زندگی کے یہ آٹھ دس سال کس طرح گزارے ہوں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں چونکہ ان  کے ایک ہی وعظ کا ذکر ہے اس لیے انہوں نے صرف ایک ہی دفعہ دعوت دین کے لیے زبان کھولی تھی۔ مگر اول تو ایک پیغمبر کے متعلق یہ گمان کرنا ہی سخت بدگمانی ہے کہ وہ اپنے اصل کام سے غافل ہوگا۔ پھر جس شخص کی تبلیغی دُھن کا یہ حال تھا کہ دو آدمی تعبیر خواب پوچھتے ہیں اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر دین کی تبلیغ شروع کردیتا ہے اُس کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس نے قید خانے کے یہ چند سال خاموش ہی گزاردیے ہوں گے۔