اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۲۳

اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دلیلِ رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہُوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف ؑ کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا۔ ان کوبدی اور بے حیائی سے اپک کرنے اور ان کی طہارتِ نفس کو درجہٴ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحتِ الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیز گاری و تقویٰ کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے بُرے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہٴ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اُس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اُس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا۔ آگے رکوع ۴ میں اس ماحول کی جو ایک ذراسی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اُس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پارہے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتینِ کرام ایک حَسین غلام کے آگے بچھی جارہی تھیں، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اِس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف ؑ کو پختہ کردیا، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کرکے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کردیا۔