اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة یوسف

 

                                   
١۲
١١
١۰
۹
۸
۷
٦
۵
۴
۳
۲
١
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

زمانہ ٴنزول اور اجزائے مضمون:  اس سورے کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانہٴ قیام مکہ کے آخری دَور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کررہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو قتل کردیں یا جلا وطن کریں یا قید کردیں۔ اُس زمانہ میں بعض کفارِمکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر)نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایا جاتا تھا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے بعد کسی یہودیی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائیگا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں اُلٹی منہ کی کھانی پڑی۔اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اُسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ برآں اس قصے کو قریش کے اُس معاملہ پر چسپاں بھی کردیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ کررہے تھے۔
مقاصدِنزول: اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا تھا :
ایک یہ کہ محمد ؐ کی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے، اور اُن کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کردیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات ۳، ۷ میں بھی صاف صاف واضح کردیا گیا ہے اور آیات ١۰۲ - ١۰۳ میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے۔
دوسرےیہ کہ سردارانِ قریش اور محمد ؐ کے درمیان اُس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادرانِ یوسف اور یوسف ؑ کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہو جو یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخرکار اُسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اِسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹادینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورہ کے آغاز میں صاف صاف بیان کردیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا لَقَدْکَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخوَتِہۤ١اٰیٰتٌ لِّلسَّاۤئِلِینَ۔”یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“۔
حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کرکے قرآن مجید نے گویا ایک صریح پیش گوئی کردی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کرکے دکھادیا۔اس سورہ کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے ہوں گے کہ قریش والوں نے برادرانِ یوسف کی طرح محمد ؐ کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبوراً ان سے جان بچاکر مکّہ سے نکلنا پڑا۔ پھر اُن کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو بھی جلاوطنی میں ویسا ہی عرہج و اقترار نصیب ہُوا جیسا یوسف ؑ کو ہُوا تھا۔ پھر فتح مکّہ کے موقع پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایہٴ تخت میں یوسف ؑ کے سامنے ان کے بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا۔ وہاں جب برادرانِ یوسف انتہائی عجز و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تَصَدَّقْ عَلَینَا ط اِنَّ اللہَ یَجزِی المُتَصَدِّقِینَ، ”ہم پر صدقہ کیجیئے، اللہ صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے“، تو یوسف ؑ نے انتقام کی قدرت رکھنےکے باوجود انہیں معاف کردیا اور فرمایا  لَا تَثرِیبَ عَلَیکُمُالیَومَ، یَغفِرُ اللہُ لَکُم وَھُوَ اَرحَمُ الرّٰحِمِینَ ”آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے“۔اسی طرح جب یہاں محمد ؐ کے سامنے شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت ؐ ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا ”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟“ انہوں نے عرض کیا اخ کریمٌ و ابن اخ کریمِ ”آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں“۔اس پر آپ ؐ نے فرمایا  فانی اقول لکم کما قال یوسف لاخوتہ، لا تثربَ علیکم الیوم، اذھبوا فانتم الطلقاء ”میں تمہیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاوٴ تمہیں معاف کیا“۔
مباحث و مسائل: یہ دو پہلو تو اس سورہ میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید محض قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے۔
          وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کرکے دکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسحاق ؑ ، حضرت یعقوب ؑ  اور حضرت یوسف ؑ کا دین وہی تھا جو محمد ؐ کا ہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرف آج محمد ؐ دے رہے ہیں۔
          پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ کے کردار اور دوسری طرف برادران یوسف ؑ ، قافلہٴ تجار، عزیز مصر، اس کی بیوی، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے اندازِ بیان سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو، ایک نمونے کے کردار تو وہ ہیں جو اسلام، یعنی خدا کی بندگی اور حسابِ آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں، اور دوسرے نمونے کے کردار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرسی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل کرتیار ہوتے ہیں۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے۔
          پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اُس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر ماردیا مگر نتیجہ میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف ؑ کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔مگر فی الواقع انہوں نے یوسف ؑ کو اُس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لاکھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے  خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف ؑ کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی  کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔  عزیز مصر کی بیوی یوسف ؑ کو قید خانے بھجواکر اپنے نزدیک تو اُن سے انتقام لے رہی تھی، مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروانے ملک کی مربّیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ یہ محض دوچار مستثنٰی واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گراسکتی۔ بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر میں سےاس کے اُٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے، اور اُن لوگوں کے حصّے میں رسوائی کے سواکچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہا تھا۔ اور اسی طرح اس کے برعکس، خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں اُلٹی پڑتی ہیں، اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
          اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں اُن حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الہٰی میں اس کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہُوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا۔ اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقیناً رسوا ہو گاہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکّل  علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق اور صداقت کے لیے سعی کررہے ہوں اور دنیا انہیں ہٹادینے پر تُلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہوگی، اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے، بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے چائیں گے۔
          مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو، تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کرسکتا ہے۔ یوسف ؑ کو دیکھیے۔ ١۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بناکر بیچے گئے ہیں۔  تاریخ کے اُس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگاکر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعادِ سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرادیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کرلیتے ہیں۔
تاریخی و جغرافیائی حالات : اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں:
حضرت یوسف ؑ ، حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے، حضرت اسحاق ؑ کے پوتے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پرپوتے تھے۔ بائیبل کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے) حضرت یعقوب ؑ کے بارہ بیٹے چار بیویوں سےتھے، حضرت یوسف ؑ اور ان کے چھوٹے بھائی بن یمین ایک بیوی سے ، اور باقی دس دوسری بیویوں سے۔
فلسطین میں حضرت یعقوب ؑ کی جائے قیام حِبرون (موجودہ الخیل)کی وادی میں تھی جہں حضرت اسحاق ؑ اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب ؑ کی کچھ زمین سِکّمِ (موجودہ نابلس)میں تھی۔
بائیبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف ؑ کی پیدائش سن ١۹۰٦قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور سن ١۸۹۰ ق م کے قریب زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصہ کی ابتدا ہوئی ہے، یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنوئیں میں پھینکا جانا۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر سترہ برس کی تھی۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائیبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سِکّمِ کے شمال میں دُوتَن (موجودہ دُثان)کے قریب واقع تھا، اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد (شرق اُردن)سے آرہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا۔ (جِلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وَادی الیابِس کے کنارے واقع ہیں)۔
مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چروا ہے بادشاہوں (Hyksos Kings) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جاکر ۲ ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں سلطنت مصر پر قابض ہوگئے تھے۔ عرب موٴرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے ”عَمالیق“کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھےاور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب سے انہیں وہاں اپنی بادشاہی قا۴م کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہُوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف ؑ کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے  گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا، کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرھویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملاً بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔ اُسی دور کی طرف سورة مائدہ آیت ۲۰ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اِذ جَعَلَ فِیکُم اَنبِیَآءَ وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اُٹھی جس نے بِکسُوس اقتدار کا تختہ اُلٹ دیا۔ڈہائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آگیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹادیا اور بنی اسرائیل پر اُن مظالم کا سلسلہ شرہع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں آتا ہے۔
مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاوٴں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنےدیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف ؑ کے ہم عصر بادشاہ کو ”فرعون“کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ کیونکہ ”فرعون“ مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے۔ لیکن بائیبل میں غلطی سے اس کو بھی ”فرعون“ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتَّب کرنے والے سمجھتے ہوں گے کہ مصر کے سب بادشاہ ”فراعنہ“ہی تھے۔
موجودہ زمانہ کے محققین ، جنہوں نے بائیبل اور مصری تاریخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس (Apophis ) ملتا ہے، وہی حضرت یوسف ؑ کا ہم عصر تھا۔
مصر کا دارالسلطنت اُس زمانہ میں ممفِس(منف) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ١۴ میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ ١۷ ، ١۸ سال کی عمر میں وہاں پہنچے۔ دو تین سال عزیز مصر کے گھر رہے۔ آٹھ نو سال جیل میں گزارے۔ ۳۰ سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوے اور ۸۰ سال تک بلا شرکت غیرے تمام مملکت مصر پر حکومت کرتے رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انہوں نے حضرت یعقوب ؑ کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلالیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دِمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائیبل میں اس علاقے کا جُشَن یا گوشن بتایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا۔
یوسف ؑ کے قصے کی جو تفصیلات بائیبل اور تَلمُود میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا بیان بہت کچھ مختلف ہے، مگر قصے کو اہم اجزاء میں تینوں متفق ہیں۔ ہم اپنے حواشی میں حسب ضرورت ان اختلافات کو واضح کرتے جائیں گے۔

www.tafheemulquran.net