اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر١۲

متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہم یوسف ؑ کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہوگا۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کررہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں۔
بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے یوسف ؑ کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بُلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہورہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کررہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا۔