اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۹۷

یہ اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کے نظریے کی پوری ترجمانی ہے ۔ اسلام کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے سوا جو طریقہ بھی ہے غلط ہے اور اس کی پیروی نہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کسی طریقے کے لیے عقل، علم اور کتب ِ آسمانی میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ اللہ کی بندگی صرف ایک محدود مذہبی دائرے ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمدن ، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کا ہے اور انسان کسی چیز پر بھی اللہ کی مرضی سے آزاد ہو کر خود مختارانہ تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔ اس کے مقابلے میں جاہلیت کا نظریہ یہ  ہے کہ باپ دادا سے جو طریقہ بھی چلا آرہا ہو انسان کو اُسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس کی پیروی کے لیے اس دلیل کے سوا کسی مزید دلیل کی ضرور ت نہیں ہے کہ وہ باپ دادا کا طریقہ ہے۔ نیز یہ کہ دین و مذہب کا تعلق صرف  پوجا پاٹ سے ہے، رہے ہماری زندگی کے عام دنیاوی معاملات ، تو ان میں ہم کو  پوری آزادی ہونی چاہیے کہ جس طرح چاہیں کام کریں۔
اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ  زندگی کو مذہبی اور دنیاوی دائروں میں الگ الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں ہے بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے حضرت شعیبؑ کی قوم کو بھی اس تقسم پر ویسا ہی اصرار تھا جیسا آج اہلِ مغرب اور اُن کے مشرقی شاگردوں کو ہے۔ یہ فی الحقیقت کوئی نئی ”روشنی“ نہیں ہے جو انسان کو آج ”ذہنی ارتقاء“ کی بدولت نصیب ہو گئی ہو۔ بلکہ یہ وہی پرانی تاریک خیالی ہے جو ہزار ہا برس پہلے جی جاہلیت میں بھی اسی شان سے پائی جاتی تھی۔ اور اس کے خلاف اسلام کی کش مکش  بھی آج کی نہیں ہے، بہت قدیم ہے۔