اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۸۸

یہ فقرہ ان لوگوں کے نفس کی پوری تصویر کھینچ دیتا ہے  کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی نہیں رہی تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلاف فطرت راہ  پر چل پڑے تھے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب اسی گندی راہ  ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اُس گندگی ہی کہ رہ گئی تھی  اور فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی  نہیں ہے ۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی مرتبہ ہے جس سے فرو تر کسی مرتبے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اس شخص کا معاملہ تو بہت ہلکا ہے جو محض نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی سدھر بھی سکتا ہے ، اور نہ سدھرے، تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا ہوا انسان ہے۔ مگر جب کسی شخص کی ساری رغبت صرف حرام ہی  میں ہو اور وہ سمجھے کہ حلال ا س کے لیے ہے ہی نہیں تو اس کا  شمار انسانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دراصل ایک گندا کیڑا ہے جو غلاظت ہی میں پرورش پاتا ہے طَیّبات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی ۔ ایسے کیڑے اگر کسی صفائی پسند انسان کے گھر میں پیدا ہوجائیں تو وہ پہلی فرصت میں فینائل ڈال کر ان کے وجود سے اپنے گھر کو پاک کر دیتا ہے۔ پھر بھلا خدا اپنی زمین پر ان گندے کیڑوں کے اجتماع کو کب تک گوارا کر سکتا ہے۔